
قدیم یونانی اور رومی تہذیبوں میں مستقبل کے بارے میں جاننے کی خواہش ایک عام بات تھی۔ وہ مختلف طریقوں سے پیشین گوئیاں کرتے تھے، جن میں جانوروں کے رویے کا مشاہدہ کرنا، ستاروں کی چال دیکھنا، اور دیوتاؤں سے براہ راست رابطہ کرنے کی کوشش کرنا شامل تھا۔ ان طریقوں کا مقصد یہ جاننا تھا کہ قسمت میں کیا لکھا ہے اور زندگی کے اہم فیصلوں میں رہنمائی حاصل کرنا تھا۔
فہرست
ان تہذیبوں کے لوگ یہ مانتے تھے کہ کائنات ایک زندہ وجود ہے جس میں دیوتاؤں کی مرضی شامل ہے۔ ان کے خیال میں دیوتا مستقبل کے بارے میں اشارے دیتے ہیں جنہیں سمجھ کر آنے والے واقعات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آئیے ان کے کچھ اہم طریقوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
جانوروں سے پیشین گوئی (Augury)
قدیم روم میں، جانوروں کے ذریعے پیشین گوئی کرنا ایک عام رواج تھا۔ اسے "آگوری" (Augury) کہا جاتا تھا۔ اس طریقے میں خاص طور پر پرندوں کے رویے کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ آگور نامی پادری پرندوں کی پرواز، ان کی آوازوں اور ان کے کھانے کے انداز کو دیکھ کر مستقبل کے بارے میں بتاتے تھے۔
مثال کے طور پر، اگر کوئی پرندہ دائیں جانب سے اڑتا ہوا نظر آتا تو اسے اچھا شگون سمجھا جاتا تھا، جبکہ بائیں جانب سے اڑنے والے پرندے کو بدشگونی سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح، اگر کوئی پرندہ کسی خاص جگہ پر بیٹھتا یا کوئی خاص آواز نکالتا تو اس کی بھی ایک خاص تعبیر ہوتی تھی۔ اہم فیصلے کرنے سے پہلے رومی سیاستدان اور جرنیل اکثر آگور سے مشورہ کرتے تھے۔
ستاروں سے پیشین گوئی (Astrology)
قدیم یونانی اور رومی دونوں ہی علم نجوم میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ یہ مانتے تھے کہ ستاروں اور سیاروں کی چالیں انسانی زندگی اور واقعات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ علم نجوم کے ذریعے، وہ کسی شخص کی پیدائش کے وقت ستاروں کی پوزیشن کو دیکھ کر اس کی شخصیت، قسمت اور مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے تھے۔
یونانیوں نے علم نجوم کو مزید ترقی دی اور اسے ایک باقاعدہ علم کی شکل دی۔ انہوں نے زائچہ (Horoscope) بنانے کا طریقہ ایجاد کیا، جس میں کسی شخص کی پیدائش کے وقت ستاروں کی پوزیشن کو ایک چارٹ میں دکھایا جاتا ہے۔ اس زائچے کی بنیاد پر، نجومی اس شخص کے مستقبل کے بارے میں پیشین گوئیاں کرتے تھے۔ رومیوں نے بھی یونانی علم نجوم کو اپنایا اور اسے اپنی ثقافت کا حصہ بنا لیا۔
غیب گوئی (Oracle)
غیب گوئی ایک اور اہم طریقہ تھا جس کے ذریعے قدیم یونانی اور رومی مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ غیب گوئی میں، لوگ دیوتاؤں سے براہ راست سوالات پوچھتے تھے اور ان سے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس مقصد کے لیے، خاص مقامات بنائے جاتے تھے جنہیں "اوریکل" (Oracle) کہا جاتا تھا۔
سب سے مشہور اوریکل ڈیلفی (Delphi) کا اوریکل تھا، جو یونان میں واقع تھا۔ یہاں پائتھیا (Pythia) نامی ایک پادری ہوا کرتی تھی جو اپالو دیوتا کی طرف سے جواب دیتی تھی۔ لوگ دور دراز سے ڈیلفی آتے تھے اور پائتھیا سے اپنے مستقبل کے بارے میں سوالات پوچھتے تھے۔ پائتھیا ایک خاص قسم کی گیس سونگھ کر خُود فراموشی کے عالم میں چلی جاتی تھی اور پھر مبہم اور پراسرار انداز میں جواب دیتی تھی۔ ان جوابات کو پادری حضرات اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر سمجھتے اور لوگوں کو بتاتے تھے۔
The ancient Greeks and Romans believed in the power of divination to understand the future. They saw the world as interconnected, with signs and omens present in everyday life. These signs, they believed, could be interpreted to gain insights into what was to come.
Their methods, while seemingly superstitious to modern eyes, were deeply ingrained in their culture and played a significant role in their decision-making processes. From political strategies to personal choices, divination influenced many aspects of their lives.
دیگر طریقے
ان کے علاوہ، قدیم یونانی اور رومی دیگر طریقوں سے بھی مستقبل کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ ان میں خوابوں کی تعبیر، ہاتھوں کی لکیریں پڑھنا، اور ہڈیوں کے ذریعے پیشین گوئی کرنا شامل تھا۔ خوابوں کو دیوتاؤں کی طرف سے بھیجے گئے پیغامات سمجھا جاتا تھا، اور ان کی تعبیر کے لیے خاص ماہرین موجود تھے۔ ہاتھوں کی لکیروں کو پڑھ کر کسی شخص کی شخصیت اور مستقبل کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا تھا۔ اسی طرح، ہڈیوں کو پھینک کر ان کی ترتیب سے بھی پیشین گوئیاں کی جاتی تھیں۔
Qadeem Yunani aur Romi log mustaqbil ke barey mein janney ke liye bohat se tareeqey istemal kartey they. Un ka yeh yaqeen tha ke kainaat mein aisey nishanaat mojood hain jin ko samajh kar aaney waley waqiyat ka andaza lagaya ja sakta hai.
Janwaron ke ravaiye ka mushahida karna, sitaron ki chaal dekhna, aur deutaon se raabta karna un ke aam tareeqey they. In tareeqon ka maqsad yeh tha ke qismat mein kya likha hai aur zindagi ke ahem faislon mein rehnumai hasil karna.
Ajj kal yeh tareeqey puraney lag saktey hain, lekin qadeem zamane mein in ki bohat ahmiyat thi aur log in par bohat yaqeen kartey they.
ان طریقوں کی اہمیت
قدیم یونانی اور رومی تہذیبوں میں ان طریقوں کی بڑی اہمیت تھی۔ لوگ ان پر یقین رکھتے تھے اور انہیں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھتے تھے۔ یہ طریقے نہ صرف انہیں مستقبل کے بارے میں معلومات فراہم کرتے تھے بلکہ انہیں ذہنی سکون اور تحفظ کا احساس بھی دلاتے تھے۔ اہم فیصلے کرنے سے پہلے، وہ اکثر ان طریقوں سے مشورہ کرتے تھے تاکہ انہیں صحیح سمت کا تعین کرنے میں مدد مل سکے۔
اگرچہ آج کل سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے، لیکن ان قدیم طریقوں کی تاریخی اور ثقافتی اہمیت اب بھی برقرار ہے۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان ہمیشہ سے اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کا خواہشمند رہا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے مختلف طریقے ایجاد کیے ہیں۔
خلاصہ
مختصر یہ کہ قدیم یونانی اور رومی مستقبل کے بارے میں جاننے کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کرتے تھے، جن میں جانوروں سے پیشین گوئی، ستاروں سے پیشین گوئی، اور غیب گوئی شامل تھے۔ ان طریقوں کا مقصد دیوتاؤں کی مرضی کو سمجھنا اور زندگی کے اہم فیصلوں میں رہنمائی حاصل کرنا تھا۔ اگرچہ یہ طریقے آج کل غیر سائنسی لگتے ہیں، لیکن قدیم تہذیبوں میں ان کی بڑی اہمیت تھی اور یہ ان کی ثقافت کا ایک اہم حصہ تھے۔
```سوالات و جوابات
جانوروں سے پیشین گوئی کیسے کی جاتی تھی؟
پرانے زمانے میں، لوگ جانوروں، خاص طور پر پرندوں کو دیکھ کر مستقبل بتاتے تھے۔ وہ دیکھتے تھے کہ پرندے کیسے اڑ رہے ہیں، کیا آوازیں نکال رہے ہیں، اور کیسے کھا رہے ہیں۔ ان چیزوں کو دیکھ کر وہ اندازہ لگاتے تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
In ancient times, people predicted the future by observing animals, especially birds, noting their flight patterns, sounds, and eating habits to make predictions.
Purane zamane mein, log janwaron, khaas taur par parindon ko dekh kar mustaqbil batate the. Woh dekhte the ke parinde kaise ud rahe hain, kya awaazein nikaal rahe hain, aur kaise kha rahe hain. In cheezon ko dekh kar woh andaza lagate the ke aage kya hone wala hai.
ستاروں سے پیشین گوئی کا کیا مطلب ہے؟
ستاروں سے پیشین گوئی کا مطلب ہے کہ ستاروں اور سیاروں کی چال دیکھ کر لوگوں کی قسمت اور مستقبل کے بارے میں بتانا۔ لوگ مانتے تھے کہ ستارے انسانوں کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں۔
Predicting the future through astrology involves interpreting the movements of stars and planets to understand people's destinies and futures, based on the belief that celestial bodies influence human lives.
Sitaron se peshingoi ka matlab hai ke sitaron aur sayyaron ki chaal dekh kar logon ki qismat aur mustaqbil ke barey mein batana. Log mante the ke sitare insano ki zindagi par asar dalte hain.
غیب گوئی کیا تھی اور یہ کیسے کی جاتی تھی؟
غیب گوئی میں لوگ دیوتاؤں سے براہ راست سوال پوچھتے تھے۔ وہ خاص جگہوں پر جاتے تھے جہاں پادری دیوتاؤں کی طرف سے جواب دیتے تھے۔ لوگ ان جوابات کو سمجھ کر اپنے مستقبل کے بارے میں جانتے تھے۔
Divination involved people directly asking questions to the gods, visiting special places where priests would deliver answers on behalf of the deities, which people then interpreted to understand their future.
Ghaib goi mein log dewtaon se barah-e-raast sawal puchte the. Woh khaas jaghon par jate the jahan paadri dewtaon ki taraf se jawab dete the. Log un jawabaat ko samajh kar apne mustaqbil ke barey mein jante the.
ان طریقوں کی اہمیت کیا تھی؟
پرانے زمانے کے لوگ ان طریقوں پر بہت یقین کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان سے انہیں مستقبل کے بارے میں معلومات ملتی ہیں اور زندگی کے اہم فیصلے کرنے میں مدد ملتی ہے۔
People in ancient times deeply believed in these methods, considering them a source of information about the future and helpful in making important life decisions.
Purane zamane ke log in tareeqon par bohat yaqeen karte the. Woh samajhte the ke in se unhen mustaqbil ke barey mein maloomat milti hain aur zindagi ke ahem faisle karne mein madad milti hai.